September 17, 2005, border the Indian authorities a group of prisoners handed over to Pakistan what-this group varied prisoners-their hands gthryun in the form of goods, which was probably his clothes were used-but This group includes sixty and sixty-five-year-old was a Pakistani-which it was not in the hands of an interconnected
The old man and the Azad Kashmir Regiment of Pakistan Army reached When he arrived, he made a strange dauy--view of the claim presented before him regiment commander-commander was not present at the feeble old man Where such force that he was a young soldier commander salute and a paper written in broken words
"The soldiers were on duty popular Hussain number 335139 and is awaiting orders of their commander," commander chopped tongue emaciated, weak and confused person laid claim to the baffle-commander ever and never sees the writingMeanwhile one of the enemy shells blasted hands took the injured soldiers Maqbool Hussain krdya- he fell unconscious and arrested him krlya- the sixth when the clouds of war between the two countries, India exchange lists of prisoners Hussein was popular zkrnh soldier anywhere-so our army soldiers also were popular tsurkrlya-heroic martyrs Hussein made his name engraved on the monument was beautiful and kryl body's own police force-adrbharty popular HussainHussein's bravery and steadfastness of the Army officers were crazy-when he tells you he's no secret that the popular Hussein Hussein tortured famous for its calm, saying "Down with Pakistan say" soldier popular Hussain Marta energy collected by the slogan Long live Pakistan, the Indian army soldier takes a swing popular they run the lay-start and say it was crazy crazy crazy Pakistani military is the enemy of your soul aurspahy popular Hussain says yes Crazy --- I --- I'm crazy for my country, a single atom corners of our country ... I'm crazy ... I'm crazy to defend their country's honor and dignityPut locked-soldier Maqbool Hussain 1965. Since 2005 their best forty years cell spent now chopped from Pakistan living in the slogan of the cast, but his body of clothing on wearing ragsrha- come together, we salute today are a hundred maniacs
17ستمبر 2005 ء کو واہگہ بارڈر کے راستے بھارتی حکام نے قیدیوں کا ایک گروپ پاکستانی حکام کے حوالے کیا-اس گروپ میں مختلف نوعیت کے قیدی تھے-ان کے ہاتھوں میں گٹھڑیوں کی شکل میں کچھ سامان تھا جو شاید ان کے کپڑے وغیرہ تھے-لیکن اس گروپ میں ساٹھ پینسٹھ سالہ ایک ایسا پاکستانی بھی شامل تھا-جس کے ہاتھوں میں کوئی گٹھڑی نہ تھی-
جسم پر ہڈیوں اور ان ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی اس کی کھال کے علاوہ گوشت کا کوئی نام نہیں تھا-اور جسم اس طرح مڑا ہوا تھا جیسے پتنگ کی اوپر والی کان مڑی ہوتی ہے-خودرو جھاڑیوں کی طرح سرکے بے ترتیب بال جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ طویل عرصے تک ان بالوں نے تیل یا کنگھی کی شکل تک نہیں دیکھی ہو گی-اور دکھ کی بات کہ پاکستان داخل ہونے والے اس قیدی کی زبان بھی کٹی ہوئی تھی لیکن ان سارے مصائب کے باوجود اس قیدی میں ایک چیز بڑی مختلف تھی اور وہ تھیں اس کی آنکھیں جن میں ایک عجیب سی چمک تھی-پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد ان سارے قیدیوں کو فارغ کردیا گیا-سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے-لیکن یہ بوڑھا قیدی اپنے گھر جانے کی بجائے ایک عجیب منزل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا-کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وہ ٹوٹے ہوئے الفاظ لکھ لکھ کر اپنی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے ایک غریب سائل سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہا-اور یوں 2005 ء میں یہ بوڑھا شخص پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعوی- کردیا-اس دعوے کے پیش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کردیا-کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی نہ جانے اس بوڑھے ناتواں شخص میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا
”سپاہی مقبول حسین نمبر 335139 ڈیوٹی پر آگیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے“کمانڈر کو کٹی ہوئی زبان کے اس لاغر ، ناتواں اور بدحواس شخص کے اس دعوے نے چکرا کے رکھ دیا-کمانڈر کبھی اس تحریر کو دیکھتا اور کبھی اس بوڑھے شخص کو جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نوجوان فوجی کی طرح بھرپور سلیوٹ کیا تھا-کمانڈر کے حکم پر قیدی کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑی گئی اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لایا گیا تو ایک دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی -اور یہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں، فیتوں اور سٹارز والے اس لاغر شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے-اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا-65 ء کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہا تھا کہ دشمن سے جھڑپ ہو گئی-سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے اپنے افسران کے لئے پیغام رسانی کے فرائض کے ساتھ ہاتھ میں اٹھائی گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا مقابلے میں زخمی ہو گیا-سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ بجائے میں زخمی حالت میں آپ کا بوجھ بنوں، میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کیلئے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں-ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے ایک چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر اپنے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل کرلیا- دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ایک مرتبہ پھر دشمن کے فوجیوں کو آڑے ہاتھوں لیا- اسی دوران دشمن کے ایک گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا- وہ بے ہوش ہو کر گرپڑا اور دشمن نے اسے گرفتار کرلیا- جنگ کے بادل چھٹے تو دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکرنہ کیا-اس لئے ہماری فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصورکرلیا-بہادر شہیدوں کی بنائی گئی ایک یادگار پر اس کا نام بھی کندہ کردیا گیا-ادھربھارتی فوج خوبصورت اور کڑیل جسم کے مالک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کیلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی-اسے 4X4فٹ کے ایک پنجرا نما کوٹھڑی میں قید کردیا گیا- جہاں وہ نہ بیٹھ سکتا تھا نہ لیٹ سکتا تھا-دشمن انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ اگلوانہ سکا تھا-سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے بھارتی فوجی افسران کو پاگل کردیا-جب انہوں نے دیکھا کہ مقبول حسین کوئی راز نہیں بتاتا تو وہ اپنی تسکین کیلئے مقبول حسین کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے ”کہو پاکستان مردہ باد“ اور سپاہی مقبول حسین اپنی ساری توانائی اکٹھی کرکے نعرہ مارتا پاکستان زندہ باد، جو بھارتی فوجیوں کو جھلا کے رکھ دیتا-وہ چلانے لگتے اور سپاہی مقبول کو پاگل پاگل کہنا شروع کردیتے اور کہتے کہ یہ پاکستانی فوجی پاگل اپنی جان کا دشمن ہے اورسپاہی مقبول حسین کہتا ہاں میں پاگل ہوں---ہاں میں پاگل ہوں--- اپنے ملک کے ایک ایک ایک ذرّے کے لئے---ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کیلئے--- ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت و وقار کے لئے--- سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے- آخر انہوں نے اس زبان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور اسے پھر 4x4 کی اندھیری کوٹھڑی میں ڈال کر مقفل کردیا-سپاہی مقبول حسین نے 1965ء سے لیکر 2005ء تک اپنی زندگی کے بہترین چالیس سال اس کوٹھڑی میں گزار دیئے اب وہ کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم پر لباس کے نام پر پہنے چیتھڑوں کی مدد سے 4x4 فٹ کوٹھڑی کی دیوار کے ایک حصے کو صاف کرتا اور ا پنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے وہاں پاکستان زندہ باد لکھ دیتا-یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے وطن کی محبت کے پاگل پن میں گزارتا رہا- آئیں ہم مل کر آج ایسے سارے پاگلوں کو سلیوٹ کرتے ہیں
جسم پر ہڈیوں اور ان ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی اس کی کھال کے علاوہ گوشت کا کوئی نام نہیں تھا-اور جسم اس طرح مڑا ہوا تھا جیسے پتنگ کی اوپر والی کان مڑی ہوتی ہے-خودرو جھاڑیوں کی طرح سرکے بے ترتیب بال جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ طویل عرصے تک ان بالوں نے تیل یا کنگھی کی شکل تک نہیں دیکھی ہو گی-اور دکھ کی بات کہ پاکستان داخل ہونے والے اس قیدی کی زبان بھی کٹی ہوئی تھی لیکن ان سارے مصائب کے باوجود اس قیدی میں ایک چیز بڑی مختلف تھی اور وہ تھیں اس کی آنکھیں جن میں ایک عجیب سی چمک تھی-پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد ان سارے قیدیوں کو فارغ کردیا گیا-سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے-لیکن یہ بوڑھا قیدی اپنے گھر جانے کی بجائے ایک عجیب منزل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا-کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وہ ٹوٹے ہوئے الفاظ لکھ لکھ کر اپنی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے ایک غریب سائل سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہا-اور یوں 2005 ء میں یہ بوڑھا شخص پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعوی- کردیا-اس دعوے کے پیش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کردیا-کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی نہ جانے اس بوڑھے ناتواں شخص میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا
”سپاہی مقبول حسین نمبر 335139 ڈیوٹی پر آگیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے“کمانڈر کو کٹی ہوئی زبان کے اس لاغر ، ناتواں اور بدحواس شخص کے اس دعوے نے چکرا کے رکھ دیا-کمانڈر کبھی اس تحریر کو دیکھتا اور کبھی اس بوڑھے شخص کو جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نوجوان فوجی کی طرح بھرپور سلیوٹ کیا تھا-کمانڈر کے حکم پر قیدی کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑی گئی اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لایا گیا تو ایک دل ہلا دینے والی داستان سامنے آئی -اور یہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں، فیتوں اور سٹارز والے اس لاغر شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے-اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا-65 ء کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہا تھا کہ دشمن سے جھڑپ ہو گئی-سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اٹھائے اپنے افسران کے لئے پیغام رسانی کے فرائض کے ساتھ ہاتھ میں اٹھائی گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا مقابلے میں زخمی ہو گیا-سپاہی اسے اٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ بجائے میں زخمی حالت میں آپ کا بوجھ بنوں، میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کیلئے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں-ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے ایک چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرا کر اپنے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل کرلیا- دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ایک مرتبہ پھر دشمن کے فوجیوں کو آڑے ہاتھوں لیا- اسی دوران دشمن کے ایک گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا- وہ بے ہوش ہو کر گرپڑا اور دشمن نے اسے گرفتار کرلیا- جنگ کے بادل چھٹے تو دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکرنہ کیا-اس لئے ہماری فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصورکرلیا-بہادر شہیدوں کی بنائی گئی ایک یادگار پر اس کا نام بھی کندہ کردیا گیا-ادھربھارتی فوج خوبصورت اور کڑیل جسم کے مالک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کیلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی-اسے 4X4فٹ کے ایک پنجرا نما کوٹھڑی میں قید کردیا گیا- جہاں وہ نہ بیٹھ سکتا تھا نہ لیٹ سکتا تھا-دشمن انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ اگلوانہ سکا تھا-سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے بھارتی فوجی افسران کو پاگل کردیا-جب انہوں نے دیکھا کہ مقبول حسین کوئی راز نہیں بتاتا تو وہ اپنی تسکین کیلئے مقبول حسین کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے ”کہو پاکستان مردہ باد“ اور سپاہی مقبول حسین اپنی ساری توانائی اکٹھی کرکے نعرہ مارتا پاکستان زندہ باد، جو بھارتی فوجیوں کو جھلا کے رکھ دیتا-وہ چلانے لگتے اور سپاہی مقبول کو پاگل پاگل کہنا شروع کردیتے اور کہتے کہ یہ پاکستانی فوجی پاگل اپنی جان کا دشمن ہے اورسپاہی مقبول حسین کہتا ہاں میں پاگل ہوں---ہاں میں پاگل ہوں--- اپنے ملک کے ایک ایک ایک ذرّے کے لئے---ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کیلئے--- ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت و وقار کے لئے--- سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے- آخر انہوں نے اس زبان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور اسے پھر 4x4 کی اندھیری کوٹھڑی میں ڈال کر مقفل کردیا-سپاہی مقبول حسین نے 1965ء سے لیکر 2005ء تک اپنی زندگی کے بہترین چالیس سال اس کوٹھڑی میں گزار دیئے اب وہ کٹی زبان سے پاکستان زندہ آباد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم پر لباس کے نام پر پہنے چیتھڑوں کی مدد سے 4x4 فٹ کوٹھڑی کی دیوار کے ایک حصے کو صاف کرتا اور ا پنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے وہاں پاکستان زندہ باد لکھ دیتا-یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے بہترین دن اپنے وطن کی محبت کے پاگل پن میں گزارتا رہا- آئیں ہم مل کر آج ایسے سارے پاگلوں کو سلیوٹ کرتے ہیں

No comments:
Post a Comment